بیٹیاں بوجھ نہیں رحمت ہیں
Title: بیٹیاں بوجھ نہیں رحمت ہیں
Story:
افسانہ
وہ دسمبر کی ایک انتہائی سرد رات تھی راولپنڈی کی اس تنگ گلی میں واقع اس دو کمروں کے مکان میں اس وقت مکمل خاموشی تھی بائیں طرف موجود کمرے میں عائشہ, زینب اور فاطمہ بظاہر تو خاموش تھی مگر دل ہی دل میں اللہ سے دعائیں مانگ رہی تھی دعا یہ تھی کہ " اے میرے مالک اس دفعہ ہماری بہن نا ہو ورنہ ابو غصہ کریں گے اور اس کے ساتھ بھی ویسا ہی سلوک کریں گے جیسا ہمارے ساتھ کرتے ہیں" وہ تینوں ہی بہنیں اس وقت اپنی اپنی دعائیں مانگنے میں مصروف تھی کہ اتنے میں ساتھ والے کمرے سے بچے کے رونے کی آوازیں آنے لگی۔ سکینہ بی بی مبارک ہو بیٹی ہوئی ہے تیری دائی اماں نے چھوٹی سی بچی کو کمبل میں لپیٹتے ہوۓ کہا "کیسی مبارکباد دائی اماں راشد آئے گا دوسرے شہر سے تو وہ تو گھر سر پر اٹھا لے گا اس نے مجھے کہا تھا کہ اس دفعہ بیٹی نہیں ہونی چاہیے سکینہ نے آنسو پونچھتے ہوۓ کہا سکینہ بی بی اس راشد کو تو اللہ ہی ہدایت دے۔ بیٹا ہو یا بیٹی یہ سب تو اللہ کا کام ہے اسے کہو خدا سے ڈرو شکر کرو اللہ نے اپنی رحمت سے نوازا ہے ورنہ ایسے لوگ بھی ہیں جو بیٹیوں کے لیے ترستے ہیں " دائی اماں اب بول رہی تھی اور اورسکینہ غائب دماغی سے سن رہی تھی کیونکہ زہن اب کچھ بھی سوچنے سمجھنے سے قاصر تھا وہ صرف یہی سوچ رہی تھی کہ اب راشد کو پتا چلے گا کہ بیٹی ہوئی ہے تو کیا ہوگا کہ اتنے میں دائی ماں کی آواز کانوں میں پڑی بیٹی سردی بہت ہے اپنا خیال رکھنا میں عائشہ,زینب کو کمرے میں بھیجتی ہوں اور زیادہ سوچنا چھوڑ دو یہ سب اللہ کی دین ہے اسی میں اللہ کی مصلحت ہوگی۔ کہ اتنے میں دروازے سے سکینہ کی باقی بیٹیاں داخل ہوئی جو بلکل دبلی پتلی کمزور تھی تینوں بیٹیاں دوڑ کر ماں کے پاس آئی اور آنکھوں میں آس لیے ماں سے پوچھنے لگی " امی ہمارا بھائی ہوا ہے؟" لیکن سکینہ کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا جبکہ دائی ماں اب جا چکی تھی امی بتائے نا ہمارا بھائی ہوا ہے؟ نہیں میری جان نہیں ہوا بھائی تمھاری پھر سے بہن ہوئی ہے ۔ سکینہ نے آنسو پونچھ کہ مسکراتے ہوئے کہا عائشہ اور زینب بڑی تھی اور اس بات کو سمجھتی تھی کہ اب ابو آئیں گے تو کیا ہوگا جبکہ ابھی صرف چار سال کی تھی وہ بار بار اپنی نئی بہن کا منہ چوم رہی تھی امی اس کا نام کیا ہے فاطمہ نے پوچھا "ردا" ردا نام ہے آپ کی بہن کا سکینہ نے دہراتے ہوئے کہا-
سکینہ نیلم اور ریاض تینوں بہن بھائی تھے جن میں سکینہ سب سے چھوٹی اور لاڈلی تھی۔سکینہ کی پیدائش کے چند ماہ بعد ہی راؤف جو کہ سکینہ کا باپ تھاکھیتوں میں کام میں مصروف تھا کہ اچانک اس کے پیر پر سانپ نے کاٹ لیا اس وقت وہاں کوئی بھی موجود نہیں تھا کھیتوں میں تڑپتے ہوئے ہی اس کی موت ہو گئ۔ یاسمین(سکینہ کی ماں) نے اکیلے ہی اپنے بچوں کو پالا پوسا گھر گھر جا کر کام کرتی اپنے بچوں کی ہر جائز ضرورت کو پورا کیا وقت گزرتا گیا اور بچے بڑے ہوتے گئے سکینہ سب سے چھوٹی تھی لیکن ریاض اور نیلم سے پہلے اس کا رشتہ ہو گیا
اور وہ لاہور سے رخصت ہو کر راولپنڈی آگئی شادی کے شروع دنوں میں ساس کا رویہ اچھا تھا لیکن آہستہ آہستہ سکینہ کو کبھی جہیز کے طعنے ملتے تو کبھی کام چوری کے سارا دن ساس خود باتیں سناتی اور رات کو راشد کے آنے کے بعد اسے بھی سکینہ کی شکایتیں لگاتی جس کے بعد گالیوں کا نا ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا سکینہ کے بچوں میں سب سےبڑی عائشہ تھی اس کی پیدائش کے وقت ساس بہت خوش تھی کہ پوتا آنے والا ہے لیکن سکینہ کو نہیں پتا تھا کہ بیٹی پیدا کر کہ اس نے کون سا گناہ کر دیا جو اب اسے گالیوں کے ساتھ ساتھ چھوٹی چھوٹی سی باتوں پہ مار بھی پڑتی اور زینب اور فاطمہ کی پیدائش پہ تو انہوں نے باقاعدہ رونا شروع کر دیا " راشد راشد آ دیکھ بیٹا ایک اور لڑکی پیدا کی ہے اس نے مجھے تو لگتا ہے میں کبھی اپنے پوتے کا منہ نہیں دیکھ سکوں گی یہ حسرت میں دل میں لیے ہی قبر میں چلی جاؤں گی" سکینہ نے روتے ہوئے راشد سے کہا جو ابھی ابھی دکان سے آیا تھا " اماں میں کیا کروں اب تو نے ہی اس منحوس عورت سے میری شادی کروائی ہے راشد نے جواب دیا اور واقعی پھر کچھ ہی عرصے بعد سکینہ کی ساس اس دنیا سے چلی گئی کچھ لوگ شاید اس بات کو یا تو سمجھتے نہیں ہیں اور یا سمجھنا ہی نہیں چاہتے کہ اولاد چاہے بیٹی ہو یا بیٹا وہ اللہ کی مرضی ہے اگر بیٹا نعمت ہے تو بیٹی بھی اللہ کی رحمت ہے اور راشد بھی انہی لوگوں میں سے تھا جو ابھی بھی جانے سے پہلے سکینہ کو کہہ کہ گیا تھا کہ " مجھے بیٹا چاہیے اگر اس دفعہ بیٹا نہیں ہوا تو ماں بیٹیوں کو گھر سے نکال دو گا پڑی رہنا پھر سڑکوں پر" اب ردا کی پیدائش پہ سکینہ کو یہی ڈر تھا کہ راشد آئے گا تو کیا ہوگا
اگلے دن دوپہر کے وقت راشد گھر میں داخل ہوا تینوں بچیاں اپنی نئی بہن کے ساتھ کھیل رہی تھی جبکہ سکینہ کھانا بنانے میں مصروف تھی دھڑام کی آواز کے ساتھ دروازہ بند ہوا تو تینوں بچیوں نے سہم کر پیچھے دیکھا جہاں غصے سے سرخ چہرا لیے راشد کھڑا تھا دروازے کی آواز سن کر سکینہ بھی باہر آگئی کون ہے زینب جو اتنی زور سے دواز.............. باقی الفاظ اس کے منہ میں ہی رہ گئے راشد غصے سے دیکھتا ہو سکینہ کی طرف آیا السلام علیکم! راشد آپ آگئے کھانا......
اس سے پہلے کہ سکینہ کچھ کہتی راشد کی گرج دار آواز گونجی " بکواس بند کر اپنی اور دفعہ ہو جاؤ میرے گھر سے کہا تھا نا میں نے کہ مجھے بیٹا چاییے لیکن تم منحوس عورت ہو تم کبھی بیٹا نہیں پیدا کر سکتی اور تم تینوں کیوں رو رہی ہو زندہ ہے ماں تمہاری ابھی مری نہیں ہے " آخر میں اپنی بیٹیوں کو بھی ڈانٹا جو باپ کو غصے میں دیکھ کر رو رہی تھی " راشد کیسی باتیں کر رہے ہیں آپ یہ سب میرے بس میں نہیں یہ اللہ کے کام ہے وہ رب کسی کو بیٹا عطا کرتا ہے کسی کو بیٹی اور جس کو چاہتا ہے بے اولاد رکھتا ہے ایسے بھی لوگ ہے جو بیٹیوں کو ترستے ہیں ان معصوم بچیوں نے آخر آپ کا کیا بگاڑا ہے اگر اللہ نے چاہا تو ہمارا بیٹا بھی ہو گا" زیادہ مولانی صاحبہ بنے کی ضرورت نہیں تم منحوس ہو تم مجھے کبھی بیٹے کی خوشی دے ہی نہیں سکتی " سکینہ آنکھوں میں آنسو لیے دروازے کو دیکھ رہی تھی جہاں سے وہ ظالم انسان ابھی ابھی جا چکا تھا۔
ردا کی پیدائش کے بعد اب راشد کچھ زیادہ ہی سخت ہو گیا تھا دو وقت کی روٹی تو بیوی بچوں کو دیتا تھا لیکن اگر اس کے علاوہ کسی اور چیز کی ضرورت ہوتی تو سکینہ اور بچوں کو اسے کہتے ہوۓ بھی ڈر لگتا کیونکہ راشد غصے میں آکے گھرکی چیزیں توڑنا شروع کر دیتا اگر سکینہ کچھ کہتی تو اسے اور بچیوں کو بھی مارتا اس سب سے تنگ آکر سکینہ نے خود کپڑے سینے شروع کر دئیے اس طرح جو چند پیسے اسے ملتے ان پیسوں سے اسنے اپنی بیٹیوں کو ایک سرکاری سکول میں داخل کروایا ۔
اولاد دینا اللہ کے سوا کسی کے اختیار میں نہیں:
ترجمہ: تمام بادشاہت اللہ ہی کی ہے آسمانوں کی بھی اور زمین کی بھی وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے جسے چاہتا ہے بیٹیاں عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے بیٹے بخشتا ہے یا ان کو بیٹے اور بیٹیاں دونوں عنایت فرماتا ہے اور جس کو چاہتا ہے بے اولاد رکھتا ہے وہ تو جاننے والا( اور)قدرت والا ہے
سورۃ :الشوری
آیت: 49_50
بے شک اولاد دینا صرف اور صرف اللہ کے اختیار میں ہے جب ردا 3 سال کی ہوئی اللہ نے سکینہ اور راشدکو ایک ساتھ دو بیٹوں سے نوازا سکینہ تو خوش تھی ہی لیکن راشد کی خوشی کی کوئی حد نہیں تھی سکینہ نے اسے زندگی میں کبھی اتنا خوش نہیں دیکھا تھا عائشہ, زینب,فاطمہ اور ردا بھی بہت خوش تھی ان کا یہ بھی خیال تھا کہ اب ابو کا رویہ ہمارے ساتھ ٹھیک ہو جائے گا مگر یہ محض خیال ہی رہا کیونکہ ریحان اور آیان کی پیدائش کے بعد بیٹیوں کے ساتھ راشد کا رویہ اور سخت ہو گیا وہ بیٹوں کو تو سر پر بٹھا کر رکھتا تھا جبکہ بیٹیوں کو کمتر سمجھتا ہر وقت ڈانٹ ڈپٹ کرتا بہنوں کے ساتھ باپ کے رویے کو دیکھتے دیکھتے ریحان اور آیان کا رویہ بھی ان کے ساتھ خراب ہوتا گیا
چاروں بہنیں ان سے بڑی تھی لیکن وہ دونوں اپنی بہنوں کا بلکل بھی احترام نا کرتے اگر سکینہ ڈانٹتی تو راشد سکینہ سے لڑتا ان دونوں کیلئے وقت کے ساتھ ساتھ وہ دونوں جتنے بڑے ہوتے گئے اتنے ہی بتمیز بھی ہو گئے
" نہیں بھائی میں راشد سے پوچھ کر آپکو فون کروں گی ابھی کچھ نہیں کہہ سکتی " سکینہ اپنے بھائی سے بات کر رہی تھی ریاض جو کہ سکینہ کا بھائی تھا اور اس کے بیٹے کی شادی تھی وہ سکینہ کو بھی شادی میں آنے کی دعوت دے رہا تھاشادی کےبعد سکینہ کا کہی بھی آنا جانا بہت کم ہوگیا تھا وجہ تھی راشد کا رویہ وہ سکینہ کو کہی جانے نہیں دیتا تھا لیکن اب بھائی کے بار بار اصرار کرنے پہ اسنے سوچا ایک دفعہ راشد سے پوچھ لیتی ہوں شاید اجازت دے دیں بچے بھی اتنے سالوں بعد ماموں اور خالہ سے ملنے کو بے تاب تھے اس لیے انہوں نے بھی ماں کی منتیں شروع کر دی" امی پلیز آپ ابو سے آج ہی پوچھنا" یہ عائشہ تھی جو جانے کے لیے کچھ زیادہ ہی بے تاب تھی " اللہ کرے ابو اجازت بھی دیں دے" زینب نے بھی اپنی دعا شامل کی " اچھا اچھا اب بس بھی کر دو آج کرتی ہوں تمہارے ابو سےبات اب سو جاؤ رات کو راشد کے آنے کے بعد سکینہ نے بات شروع کی لیکن راشد نے پہلے تو صاف انکار کر دیا مگر پھر سکینہ کے بار بار اصرار کرنے پر وہ اس شرط پہ مانا کہ آیان اور ریحان دونوں راشد کے پاس ہی رہے گے چاروں بیٹیوں اور سکینہ کو اجازت مل گئی تھی جانے کی آیان اور ریحان تو ویسے بھی باپ کے پاس زیادہ خوش رہتے۔
صبح ہفتے کا دن تھا جب سب بچیوں کو پتا چلا کہ انہیں جانے کی اجازت مل گئی ہے اور وہ سب خوشی خوشی سامان باندھنے میں مصروف ہو گئے یہ جانے بنا کہ یہ سفر کچھ لوگوں کی زندگی بدل دینے والا ہے اور کچھ کی زندگی ختم کرنے 💓
اتوار والے دن صبح ناشتے کے بعد اب گھر سے نکل رہے تھے " راشد اپنا اور بچوں کا خیال رکھیئے گا ان کو زیادہ پیسے مت دیا کرے باہر کی گندی چیزیں کھاتے رہتے ہیں اور اکیلے ان کو گھر میں بھی نہیں آنے دینا سکول سے چھٹی کے بعد ان کواپنے ساتھ ہی دکان پہ بیٹھائیے گا جب آپ خود گھر آۓ گے تب ان کو بھی لے آنا اور....) ابھی سکینہ کچھ اور کہتی اس سے پہلے ہی راشد نے خاموش کرا دیا اب بس بھی کر دو میں باپ ہوں انکا شیر ہیں دونوں میرے خود سے بڑھ کر خیال رکھتا ہوں انکا اب چلومیرا دماغ کھانا بند کردو۔ سکینہ کو پتا تھا وہ ٹھیک ہی کہہ رہا ہے صرف اپنے بیٹوں سے ہی تو پیار تھا اسے آیان اور ریحان دونوں کا ماتھا چوم کر راشد کو اللہ حافظ کہتے سکینہ گھر سے باہر آگئ جبکہ بچیاں جاتے جاتے بھی پیچھے مڑ مڑ کر دیکھ رہی تھی کہ شاید ابو ہمارے سر پر بھی شفقت سے ہاتھ رکھ دے مگر ہمیشہ کی طرح ایسا نہیں ہوا اور وہ سب سفر پہ روانہ ہوگئے
سکینہ اپنی بیٹیوں کے ساتھ بس میں سوار اپنی منزل کی جانب روا دوا تھی کچھ مسافر سو رہے تھے تو کچھ جاگ رہے تھے سکینہ نے اپنی بیٹیوں کی طرف دیکھا عائشہ اور زینب باتوں میں مصروف تھی کہ شادی میں کیا پہنے گے کیا کرے گے فاطمہ کھڑکی سے باہر کے نظارے کر رہی تھی جبکہ ردا سکینہ کی گود میں سو رہی تھی سب کچھ ٹھیک تھا مگر اچانک ڈرائیور کی آنکھ لگ گئی اور گاڑی بے قابو ہوتے کبھی دائیں طرف جاتی تو کبھی بائیں طرف پورے بس میں صرف مسافروں کی چیخیں ہی تھی جن میں سکینہ اور اس کی بیٹیاں بھی شامل تھیں سکینہ ردا کو سینے میں بینچے کبھی عائشہ کو پکارتی تو کبھی زینب اور ردا کو اس کا بس چلتا تو اپنی تینوں بیٹیوں کو خود میں چھپا لیتی کچھ سیکنڈ تک یہی سلسلہ چلتا رہا پورا بس بچوں عورتوں اور مردوں کی چیخوں سے گونج رہا تھا لیکن چند سیکنڈز بعد ہی گاڑی کھائی میں گر گئی اور ہر طرف مکمل خاموشی چھا گئی آوازیں تھی تو بس ان چند لوگوں کی جو ابھی زندہ تھے جن کی کرب ناک کراہوں کی آوازیں آرہی تھی سکینہ نے آخری دفعہ بمشکل آنکھیں کھول کر دیکھا تھا ردا کو اس اپنی گود میں چھپایا تھا جس کی وجہ سے وہ بلکل ٹھیک تھی بس چند معمولی چوٹیں آئی تھی اور وہ امی امی کہتی بے تحاشا رو رہی تھی اس کے بعد اس نے اپنی بائیں جانب اپنی تین ننھی کلیوں کو دیکھا تھا عائشہ کا چہرہ نظر نہیں آیا تھا کیونکہ وہ سیٹ سے نیچے گری ہوئی تھی زینب کے سر سے خون ایک دھار کی صورت میں بہہ رہا تھا اپنی بیٹیوں کو ایسی حالت میں دیکھتے ہوئے سکینہ کا منہ تو اس وقت بند تھا چاہ کر بھی وہ کچھ نہیں بول پا رہی تھی لیکن آنکھوں سے آنسو روا تھے آخری نظر سکینہ کی فاطمہ پہ گئی تھی جو سکینہ کے بلکل قریب تھی اس کی سانسیں تو بند تھی مگر اس کی آنکھیں کھلی رہ گئی تھی اسے دیکھتے دیکھتے سکینہ کی اپنی آنکھیں بھی بند ہو گئی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔
راشد اس وقت گھر سے باہر ایک ہوٹل میں موجود کھانا کھا رہا تھا جب اسے اطلاع ملی اس کی تینوں بیٹیوں اور بیوی کو گھر لایا گیا آیان ریحان اور ردا کی دردناک چیخیں آنے والے لوگوں کو بھی رلا رہی تھی سکینہ کا بھائی اور اس کی بہن بھی آئے تھے کچھ لوگ تو جنازے کے بعد ہی چلے گئے جبکہ کچھ مہمان ابھی بھی موجود تھے لیکن کب تک موجود رہتے آخر تین دن بعد گھر بلکل خالی ہو گیا سب چلے گئے آیان اور ریحان کو راشد اپنے ساتھ لے جاتا جبکہ ردا اکیلے ہی گھر میں رہتی کبھی اسے ایسا لگتا جیسے امی بلا رہی ہو کبھی ایسا محسوس ہوتا جیسے عائشہ بلا رہی ہو وہ سارا دن کبھی ماں کو یاد کر کہ روتی تو کبھی بہنوں کو۔ اور راتوں کو تو وہ روتے روتے ہی اس کمرے میں اکیلے سو جاتی جس کمرے میں پہلے وہ اپنی تین بہنوں کے ساتھ سوتی تھی جبکہ ریحان اور آیان کو راشد اپنے ساتھ ہی سلاتا
رات کے ایک بجے کا وقت تھا جب راشد کی آنکھ کھلی کسی کے رونے کی آوازیں اس کے کانوں میں پڑ رہی تھی پہلے تو اس نے نظر انداز کر دیا اور سونے کی کوشش کرنے لگا مگر کوشش کے باوجود جب اسے نیند نہیں آئی تو وہ شدید غصے میں کمرے سے باہر آگیا وہ ردا ہی تھی جسے اکیلے کمرے میں ڈر لگ رہا تھا اب اس کی پیاری امی جان اور عزیز بہنیں نہیں تھی جو اس کے رونے کی آواز پہ فورا اٹھ کے بیٹھ جاتی اب ردا اکیلی ہو گئی تھی صحن میں بیٹھی وہ رو رہی تھی جب باپ کی آواز اس کے کانوں میں پڑی "کیا ہوا ہے اب کون سی قیامت آگئی ہے جو تم ندیاں بہا رہی ہو " "ابو مجھے مجھے ڈر لگ رہا ہے اکیلے کمرے میں نیند نہیں آرہی " ردا نے روتے ہوئے بتایا " تو کیا کروں اب میں رات کے اس وقت پورے محلے کو یہاں گھر پر جمع کر دوں کے میڈم صاحبہ کو ڈر لگ رہا ہے چلی جاتی اپنی ماں کے ساتھ تم بھی لیکن نہیں تم نے کہاں میری جان چھوڑنی ہے اب اٹھو دفعہ ہو جاؤ کمرے میں آواز نا آئے اب تمہاری ورنہ گھر سے باہر نکال دوں گا تمہیں ۔ یہ سنتے ہی وہ کمرے میں بھاگ گئی اور فورا کمبل میں گھس کے منہ پہ ہاتھ رکھ کے رونے لگی جبکہ راشد واپس سکون کی نیند سو گیا۔
اس کے بعد ردا کے رونے میں کمی آگئی اب وہ پہلے کی طرح نہیں روتی تھی شاید اب وہ ان سب چیزوں کی عادی ہو گئی تھی یا یہ کہہ لے کہ اب وہ کسی حد تک ڈھیٹ ہو گئی تھی کوئی کچھ بھی کام کہتا چپ چاپ کرر دیتی راتوں کو دیر دیر تک جب اسے نیند نہیں آتی تو وہ خود کو کتابوں میں مصروف رکھتی یہی وجہ تھی کہ اب اس کی پوزیشن آنے لگی سکول میں بھی وہ بس اپنے کام سے کام رکھتی بمشکل اس کی ایک ہی سہیلی تھی نائلہ۔
نائلہ کی امی اور سکینہ دونوں پڑوسی بھی تھے اور بہنوں کی طرح رہتیں تھیں اسی لیے ردا بھی صرف انہی کے گھر جاتی۔
وقت گزرتا ہے جسے کوئی نہیں روک سکتا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بچے بیھی بڑے ہوگئے اور راشد بوڑھا ہو گیا ریحان اورآیان نے ایف سی کے بعد اپنا ایک چھوٹا سا لیدر کا بزنس شروع کیا جو اب بہت ترقی کر چکا تھا جبکہ ردا سکولر شب کی مدد سے نرسنگ کے لاسٹ ائیر میں تھی بچے اب بڑے ہو چکے تھے اس لیے راشد کو اب ان کی شادیوں کی فکر تھی وہ اب اپنے بچوں کی خوشیاں دیکھنا چاہتا تھا۔
ابھی بہت رات ہو چکی تھی اس لے اس نے صبح بات کرنے کا سوچا
آج پیر کا دن تھا اور ردا جلدی جلدی ناشہ بنانے میں مگن تھی کیونکہ آج اسے اور اس کی دوست نائلہ کو جلدی جانا تھا باہر ریحان اور آیان آفس کے بارے میں بات کر رہے تھے جب راشد نے بولنا شروع کیا " آیان بیٹا دونوں میری بات سنو بس کر دو ہر وقت آفس آفس اپنا بھی خیال رکھا کرو تم دونوں سلامت ہو نگے تو باقی کام بھی ہوتے رہیں گے" " جی ابو آپ بات کریں ہم سن رہے ہیں" آیان نے کہا " بیٹا اب جب اللہ کا شکر ہے تم دونوں اپنے پیروں پہ کھڑے ہوچکے ہو خود کما رہے ہو دونوں کا بزنس اتنی ترقی کر چکا ہے تو میں چاہتا ہوں کہ اب تم دونوں کے گھر بھی بس جائے اب میری زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں میں تم دونوں کی خوشیاں دیکھنا چاہتا ہوں" ابو آپ بھی عجیب باتیں کرتے ہیں ابھی ہم کون سا نا خوش ہیں ابھی ہمارا شادی کا کوئی ارادہ نہیں اور اگر آپ کو شادی کرنی ہی ہیں تو اس کی کریں جو اس وقت کچن میں ہے
اس کے عمر کی لڑکیاں دو دو بچے سنبھال رہی ہے اور ایک یہ ہے میڈم صاحبہ جس کی پڑھائی ہی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی" ریحان کے چپ ہوتے ہی آیان نے بولنا شروع کیا " ابو ٹھیک ہی کہہ رہا ہے یہ پڑھ لکھ کر اس نے کون سا تیر مار لینا ہے یہی جھاڑو پونچھا کرنا ہے اور ویسے بھی مرد تو کسی بھی عمر میں شادی کر لیتا ہے لیکن لڑکی کی عمر تھوڑی سی بڑھ جائے پھر اس سے شادی کوئی نہیں کرتا اب ساری عمر تو ہم نہیں بٹھا سکتے اسے اپنے سر پر ظاہر ہے کل کو ہمارے بیوی بچے بھی ہونگے اس لیے بہتر یہی ہے اب جلد از جلد کوئی رشتہ دیکھ کر اس کو رخصت کریں" اندر کام کرتی ردا کی آنکھوں سے نکلتے خاموش آنسو اس وقت کوئی نہیں دیکھ سکتا تھا اس کے دل کی حالت سے صرف اس کا رب ہی واقف تھا۔ اب راشد نے پھر سے بولنا شروع کیا " ہاں ںیٹا ایک رشتہ تو ہے میری نظر میں بس تم دونوں بھی ہاں کر دو تو میں ان کو بلوا کر بات پکی کرتا ہوں" اندر کام کرتی ردا کے ہاتھ ساکت ہو گئے تھے بچپن سے لے کر اب تک وہ جس ماحول رہ رہی تھی اس پورے ماحول نے اسے اندر تک ڈرا کر رکھ دیا تھا اسے مرد ذات سے خوف آتا تھا اس وقت ساکت کھڑی وہ یہی سوچ رہی تھی کہ ایک زندان سے نکل کر میں دوسرے زندان میں جانے والی ہوں وہ اب سارے مردوں کو ایک جیسا سمجھنے لگی تھی انہی سوچوں میں وہ گم تھی جب ریحان کی آواز اس کے کانوں میں پڑی " اچھا ابو اب یہ بھی بتائے وہ بیچارا ہے کون جس سے اس کی شادی کرنے کا سوچ رہے ہیں" ارے بیٹا یہ گلی کے نکڑ پہ جو گھر ہے کچا سا اس میں رہتا ہے نا وہ اشفاق میری اس سے اچھی خاصی سلام دعا ہے اسی کا بیٹا ہے اگلی گلی میں دکان ہے اس کی کپڑے سیتا ہے درزی ہے اسی نے بات کی تھی اپنے بیٹے کے لیے اب میں سوچ رہا ہوں ان کو بلوا لوں تم دونوں کا کیا خیال ہے آخر میں راشد نے دونوں کی رائے مانگی اب آیان نے بات شروع کی "کون وہ جو بچپن میں ٹھیک سے بات نہیں کر پاتا تھا ہم سب اسے گونگا بولتے تھے" یہ کہتے ہی وہ ریحان کے ہاتھ پہ تالی مارتے ہوئے ہنسنے لگا "ارے یار تو یہ میڈم کون سا بہت زیادہ بولتی ہے یہ بھی تقریبا گونگی ہی ہیں دونوں کی جوڑی پرفیکٹ ہو گی" ریحان کے بولتے ہی دونوں نے قہقہے لگانے شروع کر دئیے یہ جانے بغیر کے ان کی باتوں سے کسی کا دل بری طرح زخمی ہورہا تھا اگر راشد دونوں بیٹوں صیحح غلط اور اچھے برے کی تمیز سکھاتا تو یہ نا ہوتا لیکن یہاں تو وہ بھی اپنے بیٹوں کے ساتھ ہنسنے میں مصروف تھا ساری غلطی تو اسی کی تھی کچن میں کھڑی ردا نے اپنے آنسو بے دردی سے ہاتھ کی پشت سے رگڑے" میں کیوں رو رہی ہوں آج یہ سب کوئی پہلی بار تو نہیں ہورہا اسنے خود سے یہ کہا اور پھر دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے اے میرے اللہ میں ہمیشہ کی طرح اپنا معملہ تیرے سپرد کرتی ہوں بیشک تو خوب واقف ہے کہ کیا میرے حق میں بہتر ہے اور کیا نہیں امین کہتے ہی اسنے آنسو صاف کیے اور ناشتہ لیے باہر آگئی ۔
ابھی وہ ناشتہ کھ کہ مڑی ہی تھی کہ راشد کی آواز نے اس کے قدم واپس روک لیے " آج تم کالج مت جانا تمہارے رشتے کے لیے کچھ لوگ آئیں گے آج" ردا نے کچھ بھی کہے بغیر سر ہلایا اور وہاں سے چلی گئی۔
اسنے ہمیشہ کی طرح یہ فیصلہ بھی خاموشی سے سنا تھا نہ کسی نے اس کی رائے مانگی تھی نا اس نے کچھ کہا اور اگر کہتی بھی تو کس نے اس کی سننی تھی اشفاق کے بیٹے کے ساتھ رشتہ طے ہوا تھا ردا کا جو صرف باپ اور دو بیٹے تھے بڑا بیٹا زاہد جس سے ردا کی شادی ہونے والی تھی اور چھوٹا بیٹا حیدر تھا جو کہ پڑھ رہا تھا ابھی یہ لوگ نا تو بہت زیادہ امیر تھے اور نا بہت غریب لیکن باپ بیٹے پورے محلے میں اپنی ایمانداری اور اچھے اخلاق کی وجہ سے مشہور تھے بہرحال جمعے کو ردا کا نکاح طے پایا گیا اشفاق صاحب نے کچھ بھی لینے سے انکار کر دیا تھا ان کا کہنا تھا کہ بس آپ نے ہمیں اتنی پیاری بیٹی دے دی ہمیں اور کچھ نہیں چاہیے ۔نائلہ اور اس کی امی کے ساتھ جا کہ ردا نے چند جوڑے اور کچھ ضرورت کا سامان خریدا تھا۔
جمعے کے دن بلکل سادگی سے ردا کا نکاح ہوا تھا اور وہ راشد کے گھر سے زاہد کے گھر آگئی تھی رخصتی کے وقت بھی راشد نے بیٹی کے سر پر شفقت سے ہاتھ رکھنے کی بھی زحمت نہیں کی تھی اور نا ہی ردا کو ایسی کوئی خوش فہمی تھی بلکہ گھر سے نکلتے وقت راشد نے ردا کو یہ ضرور کہا تھا " عورت کا اصل گھر شادی کے بعد اس کے شوہر کا گھر ہوتا ہے وہی رہنا اب وہی تمہارا گھر ہے اب " اس نے صاف لفظوں میں یہ باور کروایا تھا کہ اب یہان آنے کی ضرورت نہیں اس کے بعد وہ اپنے نئے گھر آگئی تھی یہ سوچتے ہوئے کہ ایک قید سے نکل کر میں دوسرے قید میں جا رہی ہوں۔
آج ردا اور زاہدکی شادی کو ایک ہفتہ ہو چکا تھا یہاں آکر ردا کے سارے خدشات غلط ثابت ہوئے تھے جب وہ نائلہ سے کہتی تھی کہ سب مرد ایک جیسے ہوتے ہیں تو نائلہ ہمیشہ اس کی بات کو رد کرتی تھی آج اسے سمجھ آگئی تھی کہ سب مرد سچ میں ایک جیسے نہیں ہوتے اشفاق اسے بیٹیوں سے بھی بڑھ کر پیار کرتا زاہد کے اخلاق کے بارے میں جتنا اس نے آج تک سنا تھا وہ اس سے کہی بڑھ کر تھا اس کی ہر ضرورت کا خیال رکھنے والا ایک محبت کرنے والا انسان تھا وہ ردا کو ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے یہ ایک نئی دنیا ہے یہ سب اس کے لئے نیا ہی تھا عورت کو عزت دینے والا گھرانہ عورت ذات سے محبت کرنے والے لوگ
"ردا بات سنو" زاہد ابھی ابھی فجر کی نماز پڑھ کر لوٹا تھا اور ردا جائےنماز لپیٹ رہی تھی جب زاہد نے اسے مخاطب کیا "جی بولے میں یہ کہہ رہا تھا کہ تم نرسنگ کر رہی ہو نا" ردا کا دل ایک دم اداس ہوا تھا کیونکہ وہ اپنی پڑھائی مکمل کرنا چاہتی تھی اسکی اداسی اس کے چہرے سے ظاہر ہو رہی تھی "کر رہی ہوں نہیں کر رہی تھی" ردا نے جواب دیا "کیو کیا تم نے چھوڑ دی پڑھائی میں نےتو سنا تھا تم بہت لائق ہو اور تمہیں پڑھنے کا بہت شوق ہے " زاہد نے حیرت سے کہا " چھوڑ دی کیونکہ اب شای ہو گئی تو" آگے وہ خاموش ہوگئی تھی "تو کیا ہوا کتنی ہی لڑکیاں ہیں جو شادی ہو جانے کے بعد بھی پڑھتی ہیں تو تم کیوں نہیں پڑھ سکتی" اب حیران ہونے کی باری ردا کی تھی اس نے حیرت سے دیکھتے ہوئے زاہد سے کہا " کیا مطلب میں پڑھ سکتی ہوں مجھے تو لگا تھا آپ اور بابا اجازت نہیں دو گے اس لیے میں نے........ یہ لو یہاں تم اجازت نہ دینے کی بات کر رہی ہو اور وہاں تمہارے سسر جی نے پہلے ہی مجھے کہہ دیا تھا کہ ان کی بیٹی کو ناراض کرنے کی یا کسی بھی کام سے روکنے کی کوشش بھی کروں گا تو پھر میری خیر نہیں ہے اور اب بیوی کے سامنے میں اپنے باپ سے مار نہیں کھا سکتا معذرت زاہد نے مزاحیہ انداز میں بتایا " اچھا مطلب میں کالج جانا سٹارٹ کر دوں آپ کوکوئی اعتراض نہیں " ردا نے ایک بار پھر پوچھا " نہیں مجھے اعتراض نہیں بلکہ خوشی ہو گی تمہیں اپنی پڑھائی چھوڑنے کی ضرورت نہیں بلکہ دل لگا کر پڑھو اور ایک بات اور کل سے جانا ہے یا پرسوں سے سوچ کہ مجھے بتاؤ پھر میں دکان پہ جاتے ہوۓ روز تمہیں کالج چھوڑ دیا کروں گا اور واپس بھی میں ہی لے کے آؤں گا ٹھیک ہے اب آجاؤ آکہ ناشتہ بناؤ مجھے بہت بھوک لگی ہے" یہ کہتے ہی وہ کمرے سے باہر چلا گیا تھا جبکہ ردا کی آنکھیں نم ہو گئی تھی اسے یہ سب ایک خوب لگ رہا تھا وہ اللہ کا جتنا شکر ادا کرتی اتنا کم تھا بیشک اللہ نے اس کے لیے بہترین انسان چنا تھا۔
آج ردا کی شادی کو 3 ماہ ہو چکے تھے اب راشد نے آیان اور ریحان دونوں سے بات کرنے کا سوچا کمرے کا دروازہ کھول کر وہ اندر داخل ہوا آیان کے ہاتھ میں لیپ ٹاپ تھا جس پر وہ کوئی کام کرنے میں مصروف تھا جب کی ریحان کسی سے موبائل پر بات کر رہا تھا راشد نے بیٹھتے ہی بات کا آغاز کیا بیٹا اب ردا کی شادی ہو گئی تو اب تم دونوں بھی شادی کیلئے ہاں کر دو لڑکیاں دیکھنے میں بھی وقت لگے گا۔ "کیا لڑکیاں کون سی لڑکیاں" ریحان نے حیران ہوتے ہوئے کہا "بیٹا تم دونوں کی جس سے شادیاں ہو گی وہ لڑکیاں" راشد نے مسکراتے ہوئے بتایا "ارے یار ابو آپ کون سی دنیا میں رہ رہے ہیں اب کیا ہم گھر گھر جا کےلڑکیاں دیکھے گے اب وہ آپ کا زمانہ نہیں رہا ہم دونوں لڑکیاں پسند کر چکے ہیں میرے بزنس پارٹنر ہے ان کی ایک بیٹی ہے مجھے وہ پسند ہے اور آیان کو جو لڑکی پسند ہے وہ ہمارے آفس میں ہی جاب کرتی ہے اور بات وات کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے ہم پہلے ہی بات کر چکے ہیں اور وہ مان بھی گئے ہیں اور ظاہر ہے مانتے بھی کیوں نا ہمیں کس جس کی کمی ہے ۔بس اب یہاں سے تھوڑا دور میں نے اور آیان نے کچھ مہینے پہلے ایک پلاٹ لیا تھا وہ ہم سیٹ کروا دیتے ہیں اب آپ شادی شادی کر رہے ہیں تو ٹھیک ہیں اس جمعے کو نہیں ہماری میٹنگ ہے ایک بہت ضروری اگلے جمعہ کو سادگی سے نکاح کر لے گے اور پھر ہال میں کچھ آفس وغیرہ کے خاص لوگوں کو انوائیٹ کر کے ولیمے کا فںکشن رکھ لیتے ہیں" بلکل ٹھیک کہہ رہے ہو تم آیان نے بھی اس کی تائید کی " اچھا اب مجھے باہر جانا ہے کچھ کام ہے " ریحان نے کہا " ارے یار مجھے بھی لے جاؤ اکیلے گھر میں بور ہو جاتا ہوں" یہ کہتے ہی آیان بھی ساتھ نکل گیا جبکہ راشد وہی صوفے پہ بیٹا رہ گیا کافی دیر بیٹھے رہنے کے بعد وہ کمرے سے باہر نکل آیا پورے گھر میں مکمل خاموشی تھی بے اختیار ہی راشد کو ردا یاد آئی تھی وہ صحن میں کھڑا اس جگہ کو دیکھ رہا تھا جہاں بیٹھ کر وہ رات دیر تک پڑھتی رہتی تھی راشد کو دمہ تھا جب اسے ایک بار کھانسی کا دورہ پڑتا تو وہ رات کو دیر دیر تک کھانستا رہتا ایسے وقت میں ردا آکے اس کے پاس کھڑی ہو جاتی اور جب تک راشد سو نہیں جاتا وہ وہی رہتی پورے گھر میں پھیلی خاموشی سے تنگ آکر وہ بھی گھر سے باہر چلا گیا اب جب تک آیان اور ریحان نا آتے اس تب تک وہ باہر ہی رہتا۔
"ردا تمہیں پتا ہے آج تمہارے دونوں بھائیوں کا نکاح تھا وہ لوگ اس گھر کو بھی چھوڑ کر چلے گئے" زاہد نے دکان سے آکے بتایا ردا کو یہ سب سننے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی وہاں اسکا کوئی اچھا وقت نہیں گزرا تھا اس لیے خاموش ہی رہی جبکہ زاہد کو اپنے بھائیوں اور ابو کے رویے کے بارے میں وہ پہلے ہی بتا چکی تھی اس لیے اس اسنے بھی اس بارے میں زیادہ بات کرنا مناسب نہیں سمجھا۔
شادی کے بعد 15 دن تک تو آیان اور ریحان دونوں اپنی بیویوں سمیت گھومنے پھرنے میں مصروف رہے اور اس کے بعد اب وہ کب گھر ہوتے تھے کب باہر راشد کو کچھ پتہ نا ہوتا وہ بس گھر میں ہی چپ چاپ پڑا رہتا۔
صبح کا وقت تھا جب راشد کمرے سے باہر ناشتے کے لیے آیا کچن کی طرف جاتے جاتے ریحان کے کمرے سے آنے والی آوازوں نے اس کے قدم جکڑ لیے جہاں ریحان کی بیوی غصے سے بول رہی تھی " ساری رات کھانستے رہتے ہیں وہ نا خود چین سے سوتے ہیں نا کسی اور کو سونے دیتے ہیں تم نے کہا تھا ہم شادی کے بعد دوبئی شفٹ ہوجائے گے میں جلداز جلد جانا چاہتی ہوں یہاں سے ایک تو ساری رات ان کے کھانس کھانس کر ہماری نیند خراب کرتے ہیں اور اوپر سے صبح سویرے نازل ہو جاتے ہیں ناشتے کیلئے ان کو اسی گھر میں رہنے دیتے کیوں لے آئے ہو انہیں یہاں" " ارے یار کیسے رہنے دیتا ان کو وہاں میں نے اور آیان نے یہ سارے اقدام بہت سوچ سمجھ کر اٹھائیں ہیں دیکھو ہم نے یہ سارا بزنس دبئی شفٹ کرنا ہے گھر لینا ہے وہاں پہ اس سب کے لیے کچھ پیسے کم پڑ رہے تھے ہم دونوں نے وہ گھر بیچ دیا اب یہاں سے جائیں گے تو فلیٹ بھی بیچ دینگے تم کیوں اتنا غصہ کر رہی ہو یار ہم دونوں نے تقریبا آدھا کام کر لیا ہے بس کچھ دن صبر کر لو اب صرف کچھ دن پلیز" ریحان نے التجا کیں۔
"اچھا ٹھیک ہے کر لیتی ہوں برداشت لیکن میں پہلے سے بتا رہی ہوں یہ ہمارے ساتھ دوبئی نہیں جائیں گے" اس نے اپنا فیصلہ سنایا " کیا لیکن پھر وہ کہاں رہے گے "ریحان نے پوچھا " یہی پاکستان میں میرے بابا کے فرینڈ ہے ان کا اولڈ ہوم ہے وہی چھوڑ جانا بہت خیال رکھیں گے ان کا وہاں پہ میرا یقین کرو" کیا اولڈ ہوم نہیں میں اپنے ابو کو اولڈ ہوم میں نہیں چھوڑ سکتا" ریحان نے غصے سے کہا " کیو کیوں نہیں چھوڑ سکتے انہیں ہم انہیں اپنے ساتھ دوبئی میں کہاں کہاں لیے پھرے گے اور اگر تم انہیں اپنے ساتھ لے کے جاؤ گے تو پھر میں نہیں جاؤں گی اور یہ میرا آخری فیصلہ ہے"- "اچھا ٹھیک وہاں اگر انکا اچھی طرح خیال رکھیں گے تو پھر صحیح ہے اگلے مہینے یہاں سے جاتے ہوئے ان کو چھوڑ جائیں گے"۔ باہر کھڑے راشد کو اب اپنے پیروں پر کھڑا رہنا مشکل لگ رہا تھا وہ دیوار کا سہارا لیے کمرے میں آگیا اور اپنے کمرے میں موجود کرسی پہ بیٹھ کر اس وقت وہ سوچ رہا تھا " میں نے اللہ سے بیٹے کی خواہش کی تھی میں نے سوچا تھا وہ میرا سہارا بنے گی لیکن ان دونوں بیٹوں نے تو میرا آخری سہارا میرا گھر بھی چھین لیا ان بیٹوں کی خوشی کے لیے میں نے بیٹیوں کا حق بھی ان سے چھین کر انہیں دیا لیکن اب یہ کیا کر رہے ہیں مجھے ہی بے گھر کر رہیے ہیں ہاں بیٹیوں کا حق میں نے اپنی بیٹیوں کا حق بھی ان سے چھین لیا کبھی ان کے ساتھ پیار سے بات نہیں کی یہ اسی کی سزا ہے راشد" اس کے ضمیر نے اسے ملامت کیا تھا کانپتے ہاتھوں میں چہرہ چھپائے اس وقت وہ بوڑھا اور کمزور راشد پھوٹ پھوٹ کر رو رہا تھا " یہی ہونا چاہیے میرے ساتھ میں نے رب کی رحمت کو ٹھکرایا ہے میرا انجام اس سے بھی بڑھ کر ہونا چاہیے وہ اس وقت بے تحاشا رو رہا تھا۔
ریحان اور آیان کا کام ایک مہینے کے بجائے پندرہ دن میں ہی ختم ہو گیا تھا اور آج انہیں دوبئی جانا تھا دونوں بھائیوں نے مل کر ابو سے صبح سویرے بات کرنے کا فیصلہ کیا اور ان کے کمرے میں داخل ہوگئے اندر راشد جائے نماز پر بیٹھا دعا مانگ رہا تھا وہ اس سب سے باخبر تھا جو اب ہونے والا تھا " آؤآؤ بیٹا دونوں" اس نے دونوں کو بلا تے ہوۓ ہاتھ سے ان کے بیٹھنے کی جگہ بھی بنائی " ابو ہم دونوں کو آپ سے ضروری بات کرنی ہے" بات کا آغاز آیان نے کیا" ہاں بیٹا خاموش مت ہو بولو کیا بات ہے ۔ ابو ہم دبئی جا رہے ہیں میرا اور آیان کا بزنس وہاں سیٹ ہو گیا ہے آپ کی طبعیت خراب رہتی ہے گھٹنوں کے درد کی وجہ سے آپ چل بھی نہیں سکتےصحیح سے میری بیوی فائزہ کے والد کے دوست ہیں ان کا اولڈ ہوم ہے وہاں پہ آپ کا بہت خیال رکھا جائے گا" ریحان اور آیان دونوں بولتے جا رہے تھے جبکہ راشد خاموشی سے سن رہا تھا اور آخر میں اس نے صرف یہی بولا ٹھیک ہے بیٹا" آیان اور ریحان دونوں کی پانچ بجے کی فلائٹ تھی دس بجے کےقریب وہ دونوں راشد کو اولڈ ہوم میں چھوڑ کر خود چلے گئے۔
ردا اپنی پڑھائی مکمل کر چکی تھی ایک بہت بڑے سرکاری ہسپتال میں اب وہ نرسنگ کر رہی تھی" زاہد مجھے آج دیر ہو جائے گی" اچھا کیوں؟ زاہد نے پوچھا " وہ آج مجھے اور کچھ اور نرسوں کو سینئر ڈاکٹرز کے ساتھ ایک اولڈ ہوم جانا ہے وہاں کچھ بزرگ ایسے ہیں جن کی طبعیت خراب ہے ہم چیک اپ کریں گے ان کی دیکھ بھال کریں گے" ردا نے مسکراتے ہوئے بتایا "اچھا یہ تو بہت اچھی بات ہے اپنا بھی خیال رکھنا مجھے فون کر دینا میں وہی آجاؤں گا تمہیں لینے " جو آپ کا حکم ردا نے ہنستے ہوئے کہا اور باہر آگئی اپنے سسر سےدعا لینے کے بعد وہ زاہد کے ساتھ ہسپتال کے لیے روانہ ہو گئی۔
سارے سٹاف کے ساتھ اس وقت ردا بھی ایک ایک کے پاس جا کر ان سے بہت پیار سے بات کرتی جب اچانک اس کی نظر کچھ فاصلے پر رکھے بیڈ پر پڑی پہلے پہلےاسے لگا شاید یہ اس کے نظر کا دھوکہ ہے لیکن نہیں سچ میں وہ اسکا سگا باپ راشد تھا وہ اپنی جگہ ساکت ہو گئی تھی اس نے تو سوچا تھا کہ راشد اپنے بہو بیٹوں کے ساتھ بہت خوش ہو گا لیکن یہ کیا اسے کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا اچانک اس نے قریب سے گزرتی ایک لڑکی کوروکا جو اسی اولڈ ہوم میں کام کرتی تھی بات سنیں ردا نے لڑکی کو مخاطب کیا "جی" اس اسنے ردا کی طرف مسکرا کر دیکھتے ہوئے جواب دیا " یہ جو سامنے بیڈ پہ ہیں یہ کب سے آئے ہیں
یہاں اور ان کو یہاں کون چھوڑ کر گیا ہے" ردا نے پوچھا " اچھا آپ ان انکل کی بات کر رہی ہے ان کا نام راشد ہے تقریبا ایک ہفتہ پہلے انکے دو بیٹے ان کو یہاں چھوڑ کر خود دبئی چلےگئے یہ بس ایسے ہی چپ ہیں جب سے آئے ہیں اگر ان کو ہم خود کچھ کھلایا تو کھا لیتے ہیں ورنہ بس یہ ایسے ہی بیٹھے رہتے ہیں " ردا اس لڑکی کو شکریہ بولتی بھاگ کر راشد کے پاس آئی۔ ابو ابو ردا نے روتے ہوئے راشد کو پکارا ردا کی آواز سنتے ہی راشد نے اس کی طرف دیکھا " ابو آپ یہاں کیسے ابو اگر وہ دونوں چلے گئے آپ میرے پاس آجاتے" ردا روتے ہوئے بول رہی تھی " کون ہو تم میں نہیں جانتا تمہیں جاؤ یہاں سے" راشد کی بات پر ردا نے پریشان ہو کر اس کی طرف دیکھا جبکہ آس پاس کھڑے لوگ بھی ان کیطرف متوجہ ہو چکے تھے" ابو یہ آپ کیابول رہے ہیں میں ہوں آپ کی بیٹی ردا" اب راشد کی آنکھوں سے بھی آنسو روانہ ہو گئے تھے " نہیں ہے میری کوئی بیٹی مجھ جیسے انسان کی بیٹی نہیں ہونی میں آج یہاں اس حال میں ہوں مجھے ابھی بھی حیرت ہوتی ہے میں بلکل ٹھیک ہوں حلانکہ میرا انجام اس سے بھی برا ہونا چاہیے تھا میں نے کبھی اپنی بچیوں سے محبت سے بات تک نہیں کی اپنی بیٹیوں کو کبھی ان کا حق انکا پیار نہیں دیا نا ہی اپنی بیوی سے کبھی پیار سے بات کی سکینہ ٹھیک کہتی تھی کہ اولاد دینا نا دینا بیٹے دینا بیٹیاں دینا یہ سب تو اس رب کے ہاتھ میں ہے مگر میں نے ہی اس بات کو نا سمجھا میں توسکینہ سے اپنی بیٹیوں سے اپنے کیے کی معافی بھی نہیں مانگ سکتا کیسابد نصیب باپ ہوں میں" اب وہ بچوں کی طرح رونا شروع کر چکا تھا آس پاس کھڑے سب لوگ بھی ردا اور راشد کے ساتھ رو رہے تھے اچانک راشد نے ردا کے سامنے اپنے دونوں ہاتھ جوڑ دیے "بیٹا میں ان سب سے تو معافی نہیں مانگ سکتا جو بہت دور جا چکے ہیں لیکن تم مجھے معاف کر دو" نیچے زمین پر بیٹھ کر ردا نے نے ان کے ہاتھوں کو چومنا شروع کر دیا تھا " ایسا مت کہے ابو مجھے آپ سے کوئی شکایت نہیں ہے میر ساتھ چلے ابو پلیز میرے ساتھ چلے میرے گھر" نہیں بیٹا میں........ ردا نے ان کی بات کو درمیان میں کاٹ دیا " ابو اگر آپ مجھ سے پیار کرتے ہیں تو آپ کو میرے ساتھ جانا پڑے گا میں اب آپ کی کوئی بات نہیں سنو گی سمجھے آپ دونوں باپ بیٹی رو رہے تھے آس پاس موجود لوگ بھی دونوں کو نم آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔ ردا نے زاہد کو فون کیا تھا اسکے ساتھ اشفاق (ردا کا سسر اور راشد کا دوست) بھی آیا تھا اور بہت پیار اور عزت کے ساتھ راشد کو اپنے ساتھ لے گئے تھے۔
راشد کو اب سچ میں احساس ہوا تھا کہ بیٹیاں بوجھ نہیں رحمت ہیں
ختم شدہ